ہفتہ, اکتوبر 5, 2024

امریکی طلبا کی احتجاجی تحریک

امریکی طلبا کی غزہ جنگ کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز اپریل کے وسط میں ہوا۔ یہ تحریک کولمبیا یونیورسٹی نیو یارک سے شروع ہوئی اور جلد ہی 70سے زائد یونیورسٹیوں اور کالجوں تک پھیل گئی، ہزاروں طلبا نے تین ہفتوں تک مختلف یونیورسٹیوں میں فلسطین کے حق میں اور غزہ جنگ کے خلاف بھر پور احتجاج کیا۔ طلبا کی احتجاجی تحریک میں شت اس وقت آئی جب 11اپریل کو طلبا نے کولمبیا  یونیورسٹی میں احتجاجی کیمپ لگایا اور کئی عمارتوں پر فلسطین کا پرچم لہرا دیا گیا۔ اس احتجاج میں طلبا اور اساتذہ دنوں شامل تھے۔ کولمبیا  یونیورسٹی کی احتجاج کے حوالے سے ایک تاریخ ہے۔ ویتنام کی جنگ کے خلاف مظاہرے ہوں یا سول رائٹس موومنٹ کے حق اس  یونیورسٹی کے طلبا ہمیشہ ہر اول کا کردار ادا کر۶تے رہے ہیں۔ویتنام کی جنگ کے خلاف یہ تحریک کا اہم مرکز کولمبیا  یونیورسٹی تھی۔ ہزاروں طلبا نے  یونیورسٹی کی 5عمارتوں پر قبضہ کر لیا تھا جو کئی دنوں تک برقرار رہا۔

          اس تاریخ کو مد نظر رکھتے ہوئے  یونیورسٹی انتظامیہ نے احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لیے پولیس طلب کی۔ پولیس نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے پر امن مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا اور 108طلبا کو گرفتار کرلیا۔ اس پولیس ایکشن کا مقصد تو تحریک کے پھیلاؤ کو روکنا تھا مگر اس کے نتیجہ میں تحریک دیگرتعلیمی اداروں تک پھیل گئی ایک کے بعد دوسری  یونیورسٹی انتظامیہ نے پولیس کی مدد سے احتجاجی تحریک کو کچلنے کی کوشش کی مگر انتظامیہ کو اس مقصد میں کامیابی نہ مل سکی۔2700سے زائد طلبا کو گرفتار کر لیا گیا جبکہ متعدد پروفیسرز بھی گرفتار کئے گئے۔ درجنوں طلبا کو  یونیورسٹیوں سے معطل کر دیا گیا نکال دیا گیا۔ حکومت اور انتظامیہ تحریک کے پھیلاو سے خوفزدہ تھی اس لئے طاقت کے استعمال سے طلبا ء تحریک کو روکنے کی کوشش کی گئی، مگر جبر اور تشدد کے نتیجہ میں تحریک کمزور نا ہوئی۔ پولیس کی طرف سے تشدد اور طاقت کا استعمال طلبا ء میں ریڈیکلا ئزیشن کو پھیلا رہا ہے۔ امریکہ میں پُر جوش سیاسی کارکنوں کی نئی کھیپ ابھر کر سامنے آئی ہے۔ وہ جد وجہد کے میدان میں اترے ہیں۔

          طلبا کی اس تحریک نے امریکی سرمایہ دارانہ ریاست کا اصل چہرہ بھی بے نقاب کیا ہے۔ امریکی عہدیدار، حکمران اور نمائیندے پوری دنیا کو جمہوریت، انسانی حقوق اور اظہار رائے کے حق پر لیکچر دیتے ہیں، امریکہ کے علاوہ پوری دنیا میں پر امن احتجاج کی حمایت کرتے ہیں۔ مگر جب امریکہ میں فلسطین کے حق میں مظاہرے ہوتے ہیں تو ان کے ساتھ دہشت گردوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ اس تحریک نے امریکی سرمایہ داری کا اصل چہرہ بے نقاب کیا ہے۔

          یونیورسٹی انتظامیہ حکومتی عہدیداران، میڈیا، دائیں بازو کے دانشور اور ری پبلکین پارٹی کے راہنماوں نے طلبا تحریک کے خلاف نہایت جارحانہ پروپیگنڈہ مہم چلائی۔ فلسطنیوں کے حقوق کی حمایت اور اسرائیلی جارحیت کی مخالفت کو یہود مخالفت قرار دیا۔اسرائیل کی فاشسٹ حکومت کے جبرووتشدد اور بربریت کو یہودیوں کی نفرت قرار دے کر پروپیگنڈہ کیا گیا۔ یہ  پروپیگنڈہ اس حقیقت کے باوجود کیا گیا کہ مظاہروں میں یہودی طلبا بھی موجود تھے۔ یہ تحریک یہودیوں کے خلاف نہیں تھی بلکہ اسرائیل کی صیہونی ریاستی پالیسیوں کے خلاف تھی۔ اس پروپیگنڈہ کے ذریعے تحریک کو بدنام کرنے کی کوشش کی گئی مگر یہ کوشش زیادہ کامیاب نہ ہو سکی۔

          امریکی کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں طلبا ء مظاہرے نیا مظہر نہیں ہے۔ امریکہ میں طلبا احتجاج کی شاندار تاریخ ہے۔ امریکی طلبا نا صرف اپنے کیمپس کے مسائل پر احتجاج کرتے ہیں، بلکہ وہ جنگوں، معاشی و سماجی نا انسافی اور نسل پرستی کے خلاف بھی جد وجہد کرتے آئے ہیں۔ ویت نام جنگ کے خلاف طلبا کی تحریک ایک وسیع البنیاد عوامی تحریک میں تبدیل ہو گئی تھی جس نے امریکی حکومت کو مجبور کر دیا تھا کہ ویت نام سے فوج کو واہس بلائیں۔ طلبا نے 1767-68 کی سول رائٹستحریک میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔

          امریکی طلباء نے ایک بار پھر بین القوامیت اور یکجہتی کا شاندار مظاہرہ کیا ہے، جس کے اثرات امریکی سیاست پر واضح طور پر مرتب ہوں گے۔ ویت نام کی جنگ کے خلاف تحریک ایک بڑی عوامی تحریک میں تبدیل ہو گئی تھی مگر ابھی تک موجودہ طلبا ء تحریک ایک وسیع عوامی تحریک میں تبدیل نہیں ہو سکی۔ امریکی تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی چھٹیوں کی وجہ سے تحریک کمزور پڑ گئی ہے۔ اس کی شدت میں کمی آئی ہے۔ جبکہ دوسری طرف مختلف یونیورسٹیاں احتجاجی طلبا ء کے ساتھ معاہدے کر رہی ہیں کہ وہ اسرائیل کے ساتھ تعاون کو کم کریں گی، اسرائیلی فنڈنگ کے حوالے سے شفافیت کو یقینی بنایا جائے گا۔ اسرائیل کی فوجی کمپنیوں کے ساتھ تحقیق اور تعاون کو کم کیا جائے گا۔ ان معاہدوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ تحریک کا کتنا دباؤ موجود ہے۔ مختلف یونیورسٹیاں اور کالجز معطل اورنکالیگئے طلبا کو بحال بھی کر رہے ہیں تا کہ تحریک کی شدت کم کی جائے۔

          امریکی طلبا درست طور پر یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ غزہ جنگ میں امریکہ کا مالیاتی اورامریکہ کی مالی مدد اور اسلحے کی فراہمی اسرائیل کے لیے اشد ضروری ہے، غزہ کی جنگ میں امریکیسرمائے اور اسلحے کا بہت اہم کردار ہے۔ امریکا اب تک اسرائیل کے لیے 35ارب ڈالرکی امداد کی منظوری دے چکا ہے۔ امریکہ اسرائیل کو اس کی ضروریات کا 65فیصد اسلحہ فراہم کرتا ہے جبکہ جرمنی 30 فیصد اور اٹلی 5فیصد ہتھیار فراہم کرتا ہے۔ اسرائیل جو کچھ غزہ میں کر رہا ہے وہ امریکی مدد کے بغیر نا ممکن ہے۔

          امریکہ سمیت دنیا بھر میں غزہ جنگ کی مخالفت بڑھ رہی ہے،مگر زیادہ تر سامراجی حکومتیں اس جنگ کی حمایت کر رہی ہیں اور اسرائیل کی مدد کر رہی ہیں، عوام کی بڑی تعداد کے جذبات اپنے حکمرانوں کی پالیسیوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔

          اسرائیل کی دنیا بھر میں اتنی مخالفت کبھی نا تھی جو اس وقت ہے، اس طرح امریکہ کو بھی دنیا بھر میں مخالفت کا سامنا ہے۔ عالمی رائے عامہ مظاہروں اور امریکی طلباء کی تحریک کے باعث تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے، فلسطین کیھمایت میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ اسرائیل اور اس کے مغربی اتحادیوں کے خلاف نفرت اور غصہ بڑھ رہا ہے۔

          امریکی طلبا ء نے ساری دنیا کے لیے ایک بہترین مثال قائم کی ہے۔ وہ اپنی ٹیوشن میں کمی اور دیگر مسائل کے لیے نہیں لڑے بلکہ انسانیت، انسانی حقوق، جمہوریت اور انسانی برابری کے اعلیٰ ادرشوں کے لیے لڑے ہیں۔

          امریکی طلبا کی یہ تحریک مستقبل کی تحریکوں کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی، نوجوان، محنت کش طلبا، کسان اور خواتین ایک نئی انگڑائی لینے کو ہیں۔ ان کی نئیپرتیں جد و جہد کے میدان میں اترنے کو تیارہیں۔ ان تحریکوں کے نتیجے میں عالمی منظر نامے میں نمایاں تبدیلیوں کے امکانات موجود ہیں۔

مزید پڑھیے

اہم ترین

ایڈیٹر کا انتخاب