ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے امریکا کو سخت الفاظ میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حالات نے تقاضا کیا تو مشرق وسطیٰ میں موجود امریکی فوجی اڈوں کو دوبارہ نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ ان کا یہ بیان خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کو مزید ہوا دینے کا سبب بن سکتا ہے۔
آیت اللہ خامنہ ای نے حالیہ بیان میں کہا کہ ایران، امریکا کی موجودگی اور اس کی خطے میں پالیسیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے، اور اگر ضرورت پیش آئی تو ایران اپنی دفاعی صلاحیتوں کو استعمال کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔ انہوں نے گزشتہ ماہ قطر میں العدید ایئر بیس پر کیے گئے ایرانی حملے کو ایک “بڑی اسٹریٹجک کامیابی” قرار دیا، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ایران نہ صرف خطے میں امریکی تنصیبات تک رسائی رکھتا ہے بلکہ ان پر مؤثر حملے کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
دوسری جانب امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے بھی 23 جون کے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ایران کی جانب سے فائر کیا گیا بیلسٹک میزائل براہ راست العدید ایئر بیس پر موجود کمیونیکیشن سسٹم کے ایک اہم حصے کو نشانہ بنا گیا، جس کے نتیجے میں بیس کے “کمیونیکیشن ڈوم” کو شدید نقصان پہنچا۔ سیٹلائٹ تصاویر میں بھی اس نقصان کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔
امریکی جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل ڈین کین نے انکشاف کیا کہ امریکا کو اس حملے کی پیشگی اطلاع مل چکی تھی، جس کے باعث بیس پر موجود اہلکاروں کو جزوی طور پر منتقل کر لیا گیا تھا، اور جانی نقصان سے بچاؤ ممکن ہوا۔
علاقائی ماہرین کا ماننا ہے کہ ایران کی جانب سے جاری اس تازہ وارننگ سے ظاہر ہوتا ہے کہ تہران امریکا کی خطے میں فوجی موجودگی سے شدید خائف ہے، اور وہ اپنی دفاعی حکمت عملی کو مزید جارحانہ بنانے پر غور کر رہا ہے۔ اگر دونوں فریقین کے درمیان کشیدگی میں کمی نہ آئی تو مشرق وسطیٰ ایک نئی محاذ آرائی کی طرف بڑھ سکتا ہے جس کے اثرات عالمی سطح پر بھی محسوس کیے جائیں گے۔